لوگوں سے دور سیکڑوں لوگوں کے ساتھ ہوں
میں موج کی طرح کئی موجوں کے ساتھ ہوں
تنہا بھی ہوں سڑک پہ کسی پول کی طرح
اور منسلک بھی دوسرے پولوں کے ساتھ ہوں
تم کو تو چھاؤں کوئی گھنی چھاؤں چاہئے
میں آج بھی جلے ہوئے پیڑوں کے ساتھ ہوں
بس اک قدم اٹھا تو وہیں ٹوٹ جاؤں گا
مثل حباب پاؤں کے چھالوں کے ساتھ ہوں
زندوں کے درمیان بھی لگتا ہے یوں مجھے
میں جیسے سرد خانے کی لاشوں کے ساتھ ہوں
یوں خوشبوئیں بہار کی بچوں نے دیں مجھے
گو خار ہوں پہ لگتا ہے پھولوں کے ساتھ ہوں
ان آنسوؤں کے ساتھ نہیں ہوں جو بہہ گئے
جو دل میں رک گئے ہیں ان اشکوں کے ساتھ ہوں
غزل
لوگوں سے دور سیکڑوں لوگوں کے ساتھ ہوں
مشتاق شاد