لوگوں نے ہم کو شہر کا قاضی بنا دیا
اس حادثے نے ہم کو نمازی بنا دیا
تم کو کہا جو چاند تو تم دور ہو گئے
تشبیہ کو بھی تم نے مجازی بنا دیا
ایک اور دن کی شام کسی طرح ہو گئی
کچھ دے دلا کے حال کو ماضی بنا دیا
بغض معاویہ میں سبھی ایک ہو گئے
اس اتحاد نے مجھے نازی بنا دیا
خالی علامتوں سے معانی نکال کر
تنقید کو بھی شعبدہ بازی بنا دیا

غزل
لوگوں نے ہم کو شہر کا قاضی بنا دیا
شجاع خاور