لوگ یوں جاتے نظر آتے ہیں مقتل کی طرف
مسئلے جیسے روانہ ہوں کسی حل کی طرف
میں ہوں اک لفظ ترستا ہوں مگر معنی کو
رشک سے دیکھتا ہوں تابع مہمل کی طرف
شہر والے ہی کبھی کھینچ کے لے آتے ہیں
جی مرا ورنہ اڑا پھرتا ہے جنگل کی طرف
بے خبر حال سے ہوں خوف ہے آئندہ کا
اور آنکھیں ہیں مری گزرے ہوئے کل کی طرف
وہ اداسی ہے کہ سب بت سے بنے بیٹھے ہیں
کوئی ہلچل ہے تو بس شہر کے پاگل کی طرف
غزل
لوگ یوں جاتے نظر آتے ہیں مقتل کی طرف
فرحت احساس