EN हिंदी
لوگ اٹھے ہیں تری بزم سے کیا کیا ہو کر | شیح شیری
log uTThe hain teri bazm se kya kya ho kar

غزل

لوگ اٹھے ہیں تری بزم سے کیا کیا ہو کر

رفعت سیٹھی

;

لوگ اٹھے ہیں تری بزم سے کیا کیا ہو کر
اور اک ہم ہیں کہ نکلے بھی تو رسوا ہو کر

تیر مژگاں کا ہے یہ گھاؤ بھرے تو کیسے
اب تو ناسور بنا زخم یہ گہرا ہو کر

شوق دیدار طلب حد ادب سے جو بڑھا
حسن نے تاب نظر چھین لی جلوہ ہو کر

مجھ سے پوچھے تو کوئی کون ہو تم کیا ہو تم
میں نے پہچان کیا تم کو تمہارا ہو کر

خار کی طرح کھٹکتا ہوں نگاہ دل میں
گل پہ قربان ہوں میں بلبل شیدا ہو کر

رائیگاں خود کو نہ کر بزم وفا میں اے دل
یوں نہ آنکھوں سے ٹپک خون تمنا ہو کر

کہہ رہے ہیں یہ حجابات تجلی مجھ سے
جلوۂ حسن ہے خود حسن کا پردہ ہو کر

فطرتاً عشق گراں گوش ازل ہی سے ہے
طالب لطف دوگونہ ہے وہ بہرا ہو کر

تم فرشتے ہی سہی میں ہوں بہرحال بشر
گفتگو مجھ سے کرو جب بھی تو مجھ سا ہو کر

مدعی ہو جو وفا کے تو ستم سہتے رہو
لب پہ آئے نہ کوئی حرف بھی شکوہ ہو کر

نت نئے رنگ بھرے اس میں تصور کے مرے
دل میں تصویر رہی حسن سراپا ہو کر

کبھی بن بن کے مٹو مثل حباب اے رفعتؔ
رنگزاروں میں رہو نقش کف پا ہو کر