EN हिंदी
لوگ تھے کیا جو ازلوں سے مشتاق ہوئے | شیح شیری
log the kya jo azalon se mushtaq hue

غزل

لوگ تھے کیا جو ازلوں سے مشتاق ہوئے

ناصر شہزاد

;

لوگ تھے کیا جو ازلوں سے مشتاق ہوئے
دشت میں سر کٹوائے سینہ چاک ہوئے

کیسا کنبہ تھا وہ جس کے بچے بھی
پیر کے خاک اور خون کا دریا پاک ہوئے

خرمے کے اک پیڑ نے دیکھی ساری کتھا
مشک پھٹی جب جسم سے بازو عاق ہوئے

انگوروں کے جھنڈ میں میٹھا جھرنا تو
تجھ پر مٹنے والے خوش ادراک ہوئے

اول دن جتنے وعدے تھے قرض لئے
آخر دن کربل میں سب بے باک ہوئے

کتنی چیخیں صدیوں کی تحویل میں گم
کتنے خیمے آگ میں جل کر خاک ہوئے

آپ نے زہر بجھی تیغیں کھائیں اور آپ
تاریخوں کی سطروں میں تریاق ہوئے

کانوں سے آویزے اترے حق ٹھہرا
نیزوں پر سر حاکم کی املاک ہوئے

ماتم کی مذموم گھڑی جب آ پہنچی
کچھ آنسو آئینے کچھ اوراق ہوئے