EN हिंदी
لوگ سب قیمتی پوشاک پہن کر پہنچے | شیح شیری
log sab qimti poshak pahan kar pahunche

غزل

لوگ سب قیمتی پوشاک پہن کر پہنچے

نتن نایاب

;

لوگ سب قیمتی پوشاک پہن کر پہنچے
اور ہم جامۂ صد چاک پہن کر پہنچے

موتیوں والی قبا والے خدا کے گھر تک
جسم پر پیراہن خاک پہن کر پہنچے

پاگلوں جنگ بگولوں سے چھڑی تھی اور تم
اپنے تن پر خس و خاشاک پہن کر پہنچے

بزم شادی کو نہ لگ جائے بری کوئی نظر
اس لیے دامن غم ناک پہن کر پہنچے

حق بیانی کا اٹھایا تھا جو ذمہ ہم نے
اس لیے لہجۂ بے باک پہن کر پہنچے

یوں تو پہنچے تھے خوشی اوڑھ کے محفل میں تری
گھر تلک دیدۂ نمناک پہن کر پہنچے

ایک دن وہ بھی نشیبوں میں ملیں گے نایابؔ
عرش تک جو کبھی افلاک پہن کر پہنچے