لوگ پابند سلاسل ہیں مگر خاموش ہیں
بے حسی چھائی ہے ایسی گھر کے گھر خاموش ہیں
دیکھتے ہیں ایک دوجے کو تماشے کی طرح
ان پہ کرتی ہی نہیں آہیں اثر خاموش ہیں
ہم حریف جاں کو اس سے بڑھ کے دے دیتے جواب
کوئی تو حکمت ہے اس میں ہم اگر خاموش ہیں
اپنے ہی گھر میں نہیں ملتی اماں تو کیا کریں
پھر رہے ہیں مدتوں سے در بدر خاموش ہیں
ٹوٹنے سے بچ بھی سکتے تھے یہاں سب آئنے
جانے کیوں اس شہر کے آئینہ گر خاموش ہیں
پیش خیمہ ہے شناورؔ یہ کسی طوفان کا
سب پرندے اڑ گئے ہیں اور شجر خاموش ہیں
غزل
لوگ پابند سلاسل ہیں مگر خاموش ہیں
عمران شناور