لوگ کیوں ڈھونڈ رہے ہیں مجھے پتھر لے کر
میں تو آیا نہیں کردار پیمبر لے کر
مجھ کو معلوم ہے معدوم ہوئی نقد وفا
پھر بھی بازار میں بیٹھا ہوں مقدر لے کر
روح بیتاب ہے چہروں کا تاثر پڑھ کر
یعنی بے گھر ہوا میں شہر میں اک گھر لے کر
کس نئے لہجے میں اب روح کا اظہار کروں
سانس بھی چلتی ہے احساس کا خنجر لے کر
یہ غلط ہے کہ میں پہچان گنوا بیٹھا ہوں
دار تک میں ہی گیا حرف مکرر لے کر
معجزے ہم سے بھی ہوتے ہیں پیمبر کی طرح
ہم نے معبود تراشے فن آذر لے کر
خودکشی کرنے چلا ہوں مجھے روکو طارقؔ
زخم احساس میں چبھتے ہوئے نشتر لے کر
غزل
لوگ کیوں ڈھونڈ رہے ہیں مجھے پتھر لے کر
شمیم طارق