لوگ کہتے ہیں بہت ہم نے کمائی دنیا
آج تک میری سمجھ میں نہیں آئی دنیا
جب نظر نامۂ اعمال کے دفتر پہ پڑی
نیکیوں پر مجھے ابھری نظر آئی دنیا
ظاہری آنکھوں سے دیکھو تو دکھائی دے پہاڑ
باطنی آنکھوں سے دیکھو تو ہے رائی دنیا
یہ قدم تیرے تعاقب میں چلے ہیں کتنا
یہ بتائے گی مری آبلہ پائی دنیا
جتنے دکھ درد تحائف میں دیئے ہے تو نے
لے کے آئے گی ازل سب کی دوائی دنیا
فیضؔ جو پھرتی ہے خود خانہ بدوشوں کی طرح
کیا کرے گی وہ میری راہ نمائی دنیا
غزل
لوگ کہتے ہیں بہت ہم نے کمائی دنیا
فیض خلیل آبادی