لوگ حیران ہیں ہم کیوں یہ کیا کرتے ہیں
زخم کو بھول کے مرہم کا گلا کرتے ہیں
کبھی خوشبو کبھی جگنو کبھی سبزہ کبھی چاند
ایک تیرے لئے کس کس کو خفا کرتے ہیں
ہم تو ڈوبے بھی نکل آئے بھی پھر ڈوبے بھی
لوگ دریا کو کنارے سے تکا کرتے ہیں
ہیں تو میرے ہی قبیلے کے یہ سب لوگ مگر
میری ہی راہ کو دشوار کیا کرتے ہیں
ہم چراغ ایسے کہ امید ہی لو ہے جن کی
روز بجھتے ہیں مگر روز جلا کرتے ہیں
وہ ہمارا در و دیوار سے مل کر رونا
چند ہم سایے تو اب تک بھی ہنسا کرتے ہیں
غزل
لوگ حیران ہیں ہم کیوں یہ کیا کرتے ہیں
شاہد لطیف