EN हिंदी
لوگ ہیں منتظر نور سحر مدت سے | شیح شیری
log hain muntazir-e-nur-e-sahar muddat se

غزل

لوگ ہیں منتظر نور سحر مدت سے

شفقت تنویر مرزا

;

لوگ ہیں منتظر نور سحر مدت سے
میں بھی بیٹھا ہوں سر راہ گزر مدت سے

مدتوں دار و رسن زیست کا عنوان رہے
مورد سنگ ہیں اس شہر میں سر مدت سے

جس کی منزل کا نشاں تک بھی نہیں نظروں میں
کب سے اس راہ میں ہیں محو سفر مدت سے

وہ کوئی دشت و بیاباں ہو کہ آبادی ہو
بن چکے ہیں سبھی شعلوں کے نگر مدت سے

ریگ زاروں میں ہے لوگوں کو ٹھکانوں کی تلاش
منتظر اپنے مکینوں کے ہیں گھر مدت سے

پا بہ زنجیر ہیں امکان رہائی تو کجا
زنگ آلود ہیں زندانوں کے در مدت سے