لیا ہے کس قدر سختی سے اپنا امتحاں ہم نے
کہ اک تلوار رکھ دی زندگی کے درمیاں ہم نے
ہمیں تو عمر بھر رہنا تھا خوابوں کے جزیروں میں
کناروں پر پہنچ کر پھونک ڈالیں کشتیاں ہم نے
ہمارے جسم ہی کیا سائے تک جسموں کے زخمی ہیں
دلوں میں گھونپ لیں ہیں روشنی کی برچھیاں ہم نے
ہمیں دی جائے گی پھانسی ہمارے اپنے جسموں میں
اجاڑی ہیں تمناؤں کی لاکھوں بستیاں ہم نے
وفا کے نام پر پیرا کئے کچے گھڑے لے کر
ڈبویا زندگی کو داستاں در داستاں ہم نے
غزل
لیا ہے کس قدر سختی سے اپنا امتحاں ہم نے
عزیز بانو داراب وفا