للہ کوئی کوشش نہ کرے الفت میں مجھے سمجھانے کی
جلنے کے علاوہ اور کوئی منزل ہی نہیں پروانے کی
ڈرنے کو تو کتنے ڈرتے ہیں رسوائی سے وہ دیوانے کی
اک حد تو مقرر کر دیتے زلفوں کے لیے لہرانے کی
نظریں تو ملاتی تھیں ان سے کچھ بات نہ تھی گھبرانے کی
اے عشق مگر ہم چوک گئے یہ چوٹ تھی دل پر کھانے کی
قربت ہو کہ دوری دونوں میں اک کیف محبت ہوتا ہے
یہ بھی ہے اسی مے خانے کی وہ بھی ہے اسی مے خانے کی
صیاد نے کھل کر بات نہ کی جس دن سے قفس میں آیا ہوں
معلوم نہیں مٹی میری گلشن کی ہے یا ویرانے کی
ساقی ترے لطف عام سے ہم واقف ہیں مگر یہ یاد رہے
اس دور میں کم راس آتی ہے شیشے کو دعا پیمانے کی
اس طرح ملا کر پی جانا ہر رند کے بس کی بات نہیں
تھوڑی سی کسی پیمانے کی تھوڑی سی کسی پیمانے کی
غزل
للہ کوئی کوشش نہ کرے الفت میں مجھے سمجھانے کی
شاداں اندوری