EN हिंदी
لکھا خط اسے لے قلم اور کاغذ | شیح شیری
likha KHat use le qalam aur kaghaz

غزل

لکھا خط اسے لے قلم اور کاغذ

جوشش عظیم آبادی

;

لکھا خط اسے لے قلم اور کاغذ
جلے عشق سوزاں سے ہم اور کاغذ

نہ رکھ دیدۂ تر پہ مکتوب اس کا
مخالف ہیں آپس میں نم اور کاغذ

خدا سے بھی ڈر لکھ نہ احوال دل کا
دوانے یہ سوز رقم اور کاغذ

لکھا صفحۂ دل پہ مکتوب تجھ کو
نہ تھا تیرے لائق صنم اور کاغذ

مرے دل کو اے چشم نامے کا اس کے
خوش آتا ہے حسن رقم اور کاغذ

ذرا دیر تیرے جو تھم جائیں آنسو
رہے ہاتھ میں کوئی دم اور کاغذ

جو کچھ صفحۂ دل میں اپنے ہے ؔجوشش
رکھے ہے یہ خوبی تو کم اور کاغذ