لکھا خط اسے لے قلم اور کاغذ
جلے عشق سوزاں سے ہم اور کاغذ
نہ رکھ دیدۂ تر پہ مکتوب اس کا
مخالف ہیں آپس میں نم اور کاغذ
خدا سے بھی ڈر لکھ نہ احوال دل کا
دوانے یہ سوز رقم اور کاغذ
لکھا صفحۂ دل پہ مکتوب تجھ کو
نہ تھا تیرے لائق صنم اور کاغذ
مرے دل کو اے چشم نامے کا اس کے
خوش آتا ہے حسن رقم اور کاغذ
ذرا دیر تیرے جو تھم جائیں آنسو
رہے ہاتھ میں کوئی دم اور کاغذ
جو کچھ صفحۂ دل میں اپنے ہے ؔجوشش
رکھے ہے یہ خوبی تو کم اور کاغذ
غزل
لکھا خط اسے لے قلم اور کاغذ
جوشش عظیم آبادی