لکھ لکھ کے آنسوؤں سے دیوان کر لیا ہے
اپنے سخن کو اپنی پہچان کر لیا ہے
آخر ہٹا دیں ہم نے بھی ذہن سے کتابیں
ہم نے بھی اپنا جینا آسان کر لیا ہے
دنیا میں آنکھیں کھولی ہیں موندنے کی خاطر
آتے ہی لوٹنے کا سامان کر لیا ہے
سب لوگ اس سے پہلے کہ دیوتا سمجھتے
ہم نے ذرا سا خود کو انسان کر لیا ہے
جن نیکیوں پہ چل کر اجداد کتنے خوش تھے
ہم نے انہی پہ چل کر نقصان کر لیا ہے
ہر بار اپنے دل کی باتیں زباں پہ لا کر
ہم نے مصیبتوں کو مہمان کر لیا ہے
اکثر ہوا ہے مرنے کی مانگ کر دعائیں
پھر ہم نے زندگی کا ارمان کر لیا ہے
اک دل کے ٹوٹنے پر روتا ہے کوئی اتنا
جھونکے کو خود ہمیں نے طوفان کر لیا ہے
سوچا بھی ہے کہ دانا بننے کی کوششوں میں
کیا حال اپنا تو نے نادان کر لیا ہے
کچھ اس طرح گزارا ہے زندگی کو ہم نے
جیسے کہ خود پہ کوئی احسان کر لیا ہے
غزل
لکھ لکھ کے آنسوؤں سے دیوان کر لیا ہے
راجیش ریڈی