لباس اس کا علامت کی طرح تھا
بدن روشن عبارت کی طرح تھا
فضا صیقل سماعت کی طرح تھی
سکوت اس کا امانت کی طرح تھا
ادا موج تجسس کی طرح تھی
نفس خوشبو کی شہرت کی طرح تھا
بساط رنگ تھی مٹھی میں اس کی
قدم اس کا بشارت کی طرح تھا
گریزاں آنکھ دعوت کی طرح تھی
تکلف اک عنایت کی طرح تھا
خلش بے دار نشے کی طرح تھی
رگوں میں خوں مصیبت کی طرح تھا
تصور پر حنا بکھری ہوئی تھی
سماں آغوش خلوت کی طرح تھا
ہوس اندھی ضرورت کی طرح تھی
وہ خود دائم محبت کی طرح تھا
وہی اسلوب سادہ شرح دل کا
کسی زندہ روایت کی طرح تھا

غزل
لباس اس کا علامت کی طرح تھا
راجیندر منچندا بانی