EN हिंदी
لیتا ہوں تیرا نام ہر اک نام سے پہلے | شیح شیری
leta hun tera nam har ek nam se pahle

غزل

لیتا ہوں تیرا نام ہر اک نام سے پہلے

نظر برنی

;

لیتا ہوں تیرا نام ہر اک نام سے پہلے
کچھ ذکر نہیں کرتا ہوں اس کام سے پہلے

منزل کی صعوبت کبھی آزار نہ ہوگی
میں نام ترا لیتا ہوں ہر گام سے پہلے

ہے عشق کا آغاز ہی انجام کا حاصل
انجام نظر آتا ہے انجام سے پہلے

میں خود ہی چلا جاؤں گا میخانے سے اٹھ کر
ساقی سے جو لڑ جائے نظر جام سے پہلے

رندان بلا نوش کی ہے بات ہی کچھ اور
مے پیتے نہیں شیخ کبھی شام سے پہلے

وحشت میں زمانہ مجھے بدنام نہ کرتا
ہو جاتا رفو چاک جو الزام سے پہلے

کہتے ہیں وہی آپ جو کہتا ہے زمانہ
کچھ اور بھی کہہ لیجئے بدنام سے پہلے

یہ ان کی عنایت سے مرا حال ہوا ہے
کچھ وار عطا کرتے ہیں انعام سے پہلے

کہتا ہوں غزل ان کے تصور میں نظرؔ جب
عالم ہی عجب ہوتا ہے الہام سے پہلے