EN हिंदी
لے اڑے خاک بھی صحرا کے پرستار مری | شیح شیری
le uDe KHak bhi sahra ke parastar meri

غزل

لے اڑے خاک بھی صحرا کے پرستار مری

صدیق افغانی

;

لے اڑے خاک بھی صحرا کے پرستار مری
راہ تکتے ہی رہے شہر کے بازار مری

تیز آندھی نے کئے مجھ پہ بلا کے حملے
پھر بھی قائم رہی مٹی کی یہ دیوار مری

چھپ گیا تھا مرے جنگل میں کوئی سایہ سا
آج تک اس کے تعاقب میں ہے تلوار مری

گونج ابھرے گی مری روح کے سناٹوں سے
سلب ہو جائے گی جب طاقت گفتار مری

ٹوٹتی جاتی ہیں سانسوں کی شکستہ کڑیاں
پھیلتی جاتی ہے صحراؤں میں جھنکار مری

کتنا بے کیف تماشائے بہاراں نکلا
جب خزاں بن کے بجھی خواہش اظہار مری

ہم سفر چاند نہ سورج نہ ستارے نکلے
تیز ہے گردش دوراں سے بھی رفتار مری

آتش و آب و ہوا خاک و خلا و افلاک
کتنے قلعوں پہ بیک وقت ہے یلغار مری

غم زمانے میں کوئی جنس تو صدیقؔ نہیں
کیا خریدیں گے کوئی چیز خریدار مری