EN हिंदी
لے لوں گا جان دے کے محبت جہاں ملے | شیح شیری
le lunga jaan de ke mohabbat jahan mile

غزل

لے لوں گا جان دے کے محبت جہاں ملے

نجم آفندی

;

لے لوں گا جان دے کے محبت جہاں ملے
کچھ دن میں شاید اور یہ سودا گراں ملے

اے کاروان عشق و وفا کے مسافرو
کہنا مرا سلام بھی منزل جہاں ملے

ہموار کر مزاج بہار و خزاں سے دل
ممکن نہیں مزاج بہار و خزاں ملے

یہ منزلت بھی حصہ دشمن میں آئے کیوں
ہم سر نہ پھوڑ لیں جو ترا آستاں ملے

پہلے ہی سے دلوں کے نہ ملنے کا ڈھنگ تھا
جس موڑ پر ملے ہیں وہ دامن کشاں ملے

میں نے کیا ہے ایک ہی عنوان سے خطاب
کس کس کے روپ میں نہ مرے مہرباں ملے

کیوں جائے نجمؔ ایسی فضا چھوڑ کر کہیں
رہنے کو جس کے گلشن ہندوستاں ملے