لے کے اس گھاٹ سے اس گھاٹ گئی میرا وجود
فکر دیمک کی طرح چاٹ گئی میرا وجود
میری بربادی میں اک شاخ بھی شامل تھی مری
خود کلہاڑی تو نہیں کاٹ گئی میرا وجود
اپنے معیار کا بھی دام نہ مل پایا مجھے
زندگی لے کے کئی ہاٹ گئی میرا وجود
میں سکندر تھا مگر آخری منزل کی طرف
لے کے اک ٹوٹی ہوئی کھاٹ گئی میرا وجود
فیضؔ جس مٹی نے ترتیب دیا تھا مجھ کو
ایک دن مٹی وہی پاٹ گئی میرا وجود
غزل
لے کے اس گھاٹ سے اس گھاٹ گئی میرا وجود
فیض خلیل آبادی