لے کے دل کہتے ہو الفت کیا ہے
حسن والو یہ شرارت کیا ہے
اک اچٹتی سی تغافل کی نگاہ
حیلہ عرض محبت کیا ہے
خود ہی نادم ہوں وفا پر اپنی
اس تبسم کی ضرورت کیا ہے
مجھ کو بہتان ہوس بھی منظور
کون سمجھے گا حقیقت کیا ہے
نکہت و نور کے سانسوں کا کماں
ورنہ تو کیا مری صورت کیا ہے
قامت یار کی بگڑی ہوئی شکل
فتنۂ روز قیامت کیا ہے
کس کی ہمت کہ تجھے ساتھ لگائے
تو بجز موج لطافت کیا ہے
ربط محسوس کی الجھن کے سوا
آپ کا جذبۂ نفرت کیا ہے
اشک غم بوند ہے پانی کی مگر
یہ بھی معلوم ہے قیمت کیا ہے
دامن ناز کی جھاڑی ہوئی گرد
اور انساں کی حقیقت کیا ہے
میں کہ اک گوہر آلودۂ خاک
کچھ نہ سمجھا مری قیمت کیا ہے
طالب داد سخن کیوں ہو نثارؔ
آپ کے شعر میں جدت کیا ہے

غزل
لے کے دل کہتے ہو الفت کیا ہے
نثار اٹاوی