لے اعتبار وعدۂ فردا نہیں رہا
اب یہ بھی زندگی کا سہارا نہیں رہا
تم مجھ سے کیا پھرے کہ قیامت سی آ گئی
یہ کیا ہوا کہ کوئی کسی کا نہیں رہا
کیا کیا گلے نہ تھے کہ ادھر دیکھتے نہیں
دیکھا تو کوئی دیکھنے والا نہیں رہا
آہیں ہجوم یاس میں کچھ ایسی کھو گئیں
دل آشنائے درد ہی گویا نہیں رہا
اللہ رے چشم ہوش کی کثرت پرستیاں
ذرے ہی رہ گئے کوئی صحرا نہیں رہا
دے ان پہ جان جس کو غرض ہو کہ دل کے بعد
ان کی نگاہ کا وہ تقاضا نہیں رہا
تم دو گھڑی کو آئے نہ بیمار کے قریب
بیمار دو گھڑی کو بھی اچھا نہیں رہا
فانیؔ بس اب خدا کے لیے ذکر دل نہ چھیڑ
جانے بھی دے بلا سے رہا یا نہیں رہا
غزل
لے اعتبار وعدۂ فردا نہیں رہا
فانی بدایونی