لے چکے دل تو جنگ کیا ہے اب
آ ملو پھر درنگ کیا ہے اب
پی گئے خم کے خم نہ کی مستی
یاں شراب فرنگ کیا ہے اب
اس نگہ کا ہے دل جراحت کش
زخم تیغ و خدنگ کیا ہے اب
ہوں میں دریائے عشق کا غواص
خوف کام نہنگ کیا ہے اب
دید و وا دید تو ہوے باہم
شرم اے شوخ و سنگ کیا ہے اب
دل سے وحشی کے تئیں شکار کیا
صید شیر و پلنگ کیا ہے اب
تھی جو رسوائی ہو چکی بیدارؔ
پاس ناموس و ننگ کیا ہے اب
غزل
لے چکے دل تو جنگ کیا ہے اب
میر محمدی بیدار