EN हिंदी
لے چکے دل تو جنگ کیا ہے اب | شیح شیری
le chuke dil to jang kya hai ab

غزل

لے چکے دل تو جنگ کیا ہے اب

میر محمدی بیدار

;

لے چکے دل تو جنگ کیا ہے اب
آ ملو پھر درنگ کیا ہے اب

پی گئے خم کے خم نہ کی مستی
یاں شراب فرنگ کیا ہے اب

اس نگہ کا ہے دل جراحت کش
زخم تیغ و خدنگ کیا ہے اب

ہوں میں دریائے عشق کا غواص
خوف کام نہنگ کیا ہے اب

دید و وا دید تو ہوے باہم
شرم اے شوخ و سنگ کیا ہے اب

دل سے وحشی کے تئیں شکار کیا
صید شیر و پلنگ کیا ہے اب

تھی جو رسوائی ہو چکی بیدارؔ
پاس ناموس و ننگ کیا ہے اب