لے چلے ہو تو کہیں دور ہی لے جانا مجھے
مت کسی بسری ہوئی یاد سے ٹکرانا مجھے
میں تو اس میں بھی بہت خوش ہوں ترا نام تو ہے
ایک جرعہ بھی ترے نام کا مے خانہ مجھے
آج دانستہ تغافل سے ہوں ہارا ہوا میں
کل تلک عمر کی سچائی تھی افسانہ مجھے
تو نے بھی مان لیا لوگوں کا پھیلایا سچ
تو نے بھی جاتے ہوئے لوٹ کے دیکھا نہ مجھے
علم کے طور پہ سیکھے ہیں محبت کے رموز
تم بنا سوچے ہی کہہ جاتے ہو دیوانہ مجھے
آ مری جان کے دشمن تری تادیب کروں
تیرا ہر وار لگا غیر دلیرانہ مجھے
اب مجھے تو ہی بتا دونوں میں کیوں تجھ کو چنوں
تو نے رکھا نہ مجھے درد نے چھوڑا نہ مجھے

غزل
لے چلے ہو تو کہیں دور ہی لے جانا مجھے
اکرام اعظم