لطیف ایسی کچھ اس دل کی شیشہ کاری تھی
کہ ایک رات بھی ہم اہل دل پہ بھاری تھی
ہزار معرکے سر کر کے لوگ ہار گئے
حسین ابن علی! فتح تو تمہاری تھی
اسی کے سائے میں سستائے اس کے بیری بھی
اس آدمی میں درختوں سی بردباری تھی
لہو کی آگ میں دل جھلسا جھلسا جاتا تھا
دریچہ کھول کے دیکھا تو برف باری تھی
قتیل ہو کے بھی میں اپنے قاتلوں سے لڑا
کہ میرے بعد مرے دوستوں کی باری تھی
شجر پہ بوزنے بیٹھے انہیں بلاتے تھے
مگر پرندوں کی پرواز ناز جاری تھی
ہر ایک ضرب کو دل سہ گیا مگر راہیؔ
جو دست گل کے سبب تھی وہ ضرب کاری تھی

غزل
لطیف ایسی کچھ اس دل کی شیشہ کاری تھی
شجاعت علی راہی