لرزتی چھت شکستہ بام و در سے بات کرنی ہے
مجھے تنہائی میں کچھ اپنے گھر سے بات کرنی ہے
بکھرنے کے مراحل میں سہارا کیوں دیا مجھ کو
مری مٹی نے دست کوزہ گر سے بات کرنی ہے
کیا تھا جان دے کے ہم نے کار آشیاں بندی
جلایا کس لیے برق و شرر سے بات کرنی ہے
مقابل حسن جب آئے ستم زادوں کی محفل میں
زباں کو قید کرنا ہے نظر سے بات کرنی ہے
بدل ڈالا ہے دنیا کو جو فرعونوں کی بستی میں
خدا نے آج شاید پھر بشر سے بات کرنی ہے
مرے پاؤں میں ڈالی ہے یہ زنجیر آسائش
جو سائے بانٹتا ہے اس شجر سے بات کرنی ہے
جو مجھ میں دوسرا ہے سب جسے منصورؔ کہتے ہیں
مجھے بھی آج اس شوریدہ سر سے بات کرنی ہے
غزل
لرزتی چھت شکستہ بام و در سے بات کرنی ہے
منصور ملتانی