EN हिंदी
لرز اٹھا ہے مرے دل میں کیوں نہ جانے دیا | شیح شیری
laraz uTha hai mere dil mein kyun na jaane diya

غزل

لرز اٹھا ہے مرے دل میں کیوں نہ جانے دیا

اختر شمار

;

لرز اٹھا ہے مرے دل میں کیوں نہ جانے دیا
ترا پیام تو خاموش سی ہوا نے دیا

جلا رہا تھا مجھے میں نے بھی جلانے دیا
اجالا اس نے دیا بھی تو کس بہانے دیا

ابھی کچھ اور ٹھہر جاتا میرے کہنے پر
وہ جانے والا تھا خود ہی سو میں نے جانے دیا

وہ اپنی سیر کے قصے مجھے سناتا رہا
مجھے تو حال دل اس نے کہاں سنانے دیا

میں شکر اس کا نہ کیسے ادا کروں جاناں
شعور مجھ کو محبت کا جس خدا نے دیا

کرم کے پل میں یہ روشن ہوا بحمداللہ
نہیں بجھے گا مرا تجھ سے اے زمانے دیا

شمارؔ سامنے اس کے بھی گفتگو کے وقت
جو رنگ چہرے پہ آیا تھا میں نے آنے دیا