لمس کو چھوڑ کے خوشبو پہ قناعت نہیں کرنے والا
ایسی ویسی تو میں اب تم سے محبت نہیں کرنے والا
مجھ سے بہتر کوئی دنیا میں کتابت نہیں کرنے والا
پر ترے ہجر کی میں جلد اشاعت نہیں کرنے والا
اپنے ہی جسم کو کل اس نے مری آنکھوں سے پورا دیکھا
اس سے بڑھ کر کوئی منظر کبھی حیرت نہیں کرنے والا
مذہب عشق سے منسوب یہ باتیں تو خارج کی ہیں
شام ہجراں میں کسی طور میں شرکت نہیں کرنے والا
ایسی بھگدڑ میں کوئی پاؤں تلے آئے تو شکوہ نہ کرے
گر گیا میں تو کوئی مجھ سے رعایت نہیں کرنے والا
لو لرزنے کا کوئی اور ہی مطلب نہ نکل آئے کہیں
پوچھنے پر بھی چراغ اور وضاحت نہیں کرنے والا
مجھے چلتے ہوئے رستے کے شجر دیکھتے جاتے ہیں رضاؔ
پر مرے ساتھ اکھڑ کر کوئی ہجرت نہیں کرنے والا

غزل
لمس کو چھوڑ کے خوشبو پہ قناعت نہیں کرنے والا
رفیع رضا