لمحوں نے یوں سمیٹ لیا فاصلہ بہت
میں نے پڑھا تو کچھ نہ تھا لیکن پڑھا بہت
کتنے جنوں نواز بچھڑ کے چلے گئے
جوش جنوں کے ساتھ نہ تھا ولولہ بہت
ڈوبا سفینہ جس میں مسافر کوئی نہ تھا
لیکن بھرے ہوئے تھے وہاں نا خدا بہت
سو دائروں میں بٹ کے نمایاں نہ ہو سکے
سوچو اگر تو ہوگا بس اک دائرہ بہت
شاید یہی کتاب محبت ہو لا جواب
میری وفا کے ساتھ ہے تیری جفا بہت
زخموں کے ساتھ ساتھ نمک پاشیاں بھی تھیں
دیکھا ہے میرے عشق نے یہ سلسلہ بہت
آنکھوں میں دم ٹکا ہے وہ آ جائیں اس گھڑی
دست طلب ہے میرے لیے یہ دعا بہت
تجھ کو شہیدؔ سادہ دلی کی نظر لگی
امکان ورنہ تیرے لیے بھی رہا بہت
غزل
لمحوں نے یوں سمیٹ لیا فاصلہ بہت
عزیز الرحمن شہید فتح پوری