لمحوں کی گھٹن خوف کا طوفان بہت ہے
میری ہی طرح وقت پریشان بہت ہے
ہم جس کے لیے شہر سکوں چھوڑ کے آئے
وہ دشت جنوں خیز بھی سنسان بہت ہے
مجھ سے مری منزل کا پتہ پوچھنے والو
ہر راستہ میرے لیے انجان بہت ہے
ہر موڑ پہ اک کوہ گراں بن کے کھڑے ہیں
ٹوٹے ہوئے لوگوں میں ابھی شان بہت ہے
آباد تھے جس میں تری یاروں کے قبیلے
وہ قریۂ جاں ان دنوں ویران بہت ہے
اے دوستو دکھ درد کے قصے نہ سناؤ
خورشیدؔ سحر آج پریشان بہت ہے

غزل
لمحوں کی گھٹن خوف کا طوفان بہت ہے
خورشید سحر