EN हिंदी
لمحوں کی گھٹن خوف کا طوفان بہت ہے | شیح شیری
lamhon ki ghuTan KHauf ka tufan bahut hai

غزل

لمحوں کی گھٹن خوف کا طوفان بہت ہے

خورشید سحر

;

لمحوں کی گھٹن خوف کا طوفان بہت ہے
میری ہی طرح وقت پریشان بہت ہے

ہم جس کے لیے شہر سکوں چھوڑ کے آئے
وہ دشت جنوں خیز بھی سنسان بہت ہے

مجھ سے مری منزل کا پتہ پوچھنے والو
ہر راستہ میرے لیے انجان بہت ہے

ہر موڑ پہ اک کوہ گراں بن کے کھڑے ہیں
ٹوٹے ہوئے لوگوں میں ابھی شان بہت ہے

آباد تھے جس میں تری یاروں کے قبیلے
وہ قریۂ جاں ان دنوں ویران بہت ہے

اے دوستو دکھ درد کے قصے نہ سناؤ
خورشیدؔ سحر آج پریشان بہت ہے