EN हिंदी
لمحہ مری گرفت میں آیا نکل گیا | شیح شیری
lamha meri giraft mein aaya nikal gaya

غزل

لمحہ مری گرفت میں آیا نکل گیا

امداد آکاش

;

لمحہ مری گرفت میں آیا نکل گیا
جیسے کسی نے ہاتھ ملایا نکل گیا

کانٹا سا اک چبھا تھا مرے دل میں خوف مرگ
میں نے ذرا سا زور لگایا نکل گیا

شیطان میری ذات کے اندر مقیم تھا
لوبان کوٹھری میں جلایا نکل گیا

جب رات خوب ڈھل گئی سویا مرا وجود
کون و مکاں کی سیر کو سایا نکل گیا

مجھ میں مقیم شخص مسافر تھا دائمی
سامان ایک روز اٹھایا نکل گیا

اک پیچ دار کیل تھا یہ سر کائنات
میں نے اسے پکڑ کے گھمایا نکل گیا