لمحہ لمحہ کہہ رہی ہیں کچھ فضائیں آگ کی
ذرہ ذرہ آ رہی ہیں کیا صدائیں آگ کی
خشک پیڑوں کے لبوں پر کیا دعائیں ہیں سنو
چھا رہی ہیں ہر طرف دیکھو گھٹائیں آگ کی
کوچہ و بازار بھی دیوار و در بھی آگ ہیں
اک اشارہ سا ہے فصلیں لہلہائیں آگ کی
آگ کی لہریں ہیں یا لوگوں کی سانسیں ہیں یہاں
دیکھنا یہ بستیاں اب بن نہ جائیں آگ کی
جسم تو کب کا جلا اب روح تک جاتی ہے آنچ
چل رہی ہیں تیز کیسی یہ ہوائیں آگ کی
اڑ رہا ہے اک بگولا آگ برساتا ہوا
کھیتیاں سب نذر لوگو ہو نہ جائیں آگ کی
غزل
لمحہ لمحہ کہہ رہی ہیں کچھ فضائیں آگ کی
احمد ہمدانی