لمبی خاموشی کی سازش کو ہرائے کوئی
میری آواز میں آواز ملائے کوئی
میں بھی اڑ سکتا ہوں آکاش کو چھو سکتا ہوں
میرا سویا ہوا احساس جگائے کوئی
کوئی تو ہوگا مجھے ڈھونڈنے والا یارو
میرا گمنام پتہ سب کو بتائے کوئی
ایسا لگتا کہ سب بھول گئے ہیں مجھ کو
میرے دروازے پہ آواز لگائے کوئی
ہر طرف صرف سراب اور سراب اور سراب
کب تک آنکھوں سے بھلا پیاس بجھائے کوئی
سچ ہے میں نے ہی خموشی کی گزارش کی تھی
اب مری گمشدہ آواز تو لوٹائے کوئی
جس کو سن کر مرے دروازے پہ لگ جائے ہجوم
اس طرح کی کوئی افواہ اڑائے کوئی
غزل
لمبی خاموشی کی سازش کو ہرائے کوئی
سبودھ لال ساقی