لکیر سنگ کو عنقا مثال ہم نے کیا
بھلا دیا اسے دل سے کمال ہم نے کیا
شروع اس نے کیا تھا تماشہ قربت کا
پھر اس کے بعد تو سارا دھمال ہم نے کیا
الٹ کے رکھ دیے ہم نے جنوں کے سارے اصول
جنوب دشت کو شہر شمال ہم نے کیا
فروغ زخم سے روشن رکھا سیاہی کو
عطائے ہجر کو نجم وصال ہم نے کیا
بسا لیا تری خوشبو کو مزرع جاں میں
شگفت غم تجھے کیسا نہال ہم نے کیا
اک اور موج تھی اس موج آگہی سے ادھر
سو اوج عقل کو نذر زوال ہم نے کیا
بہانہ کوئی نہیں اب سفر میں رہنے کا
زمین خواب تجھے پائمال ہم نے کیا
یہ بے نیازی ضروری تھی کار الفت میں
سو خود کا دھیان نہ تیرا خیال ہم نے کیا
صبا تو خود ہی مخاطب تھی اے فضائے قفس
گواہ رہیو نہ کوئی سوال ہم نے کیا
دھنک سی بن گئی گویائی سے سماعت تک
یہ کس کے رنگ کو جزو مقال ہم نے کیا
ہمارے زخم کی سرخی بڑھا گیا ارشدؔ
وہ برگ سبز جسے دست مال ہم نے کیا
غزل
لکیر سنگ کو عنقا مثال ہم نے کیا
ارشد عبد الحمید