لخت جگر کو کیونکر مژگان تر سنبھالے
یہ شاخ وہ نہیں جو بار ثمر سنبھالے
دیوانہ ہو کے کوئی پھاڑا کرے گریباں
ممکن نہیں کہ دامن وہ بے خبر سنبھالے
تلوار کھینچ کر وہ خوں خوار ہے یہ کہتا
منہ پر جو کھاتے ڈرتا ہو وہ سپر سنبھالے
تکیے میں آدمی کو لازم کفن ہے رکھنا
بیٹھا رہے مسافر رخت سفر سنبھالے
یک دم نہ نبھنے دیتی ان کی تنک مزاجی
رکھتے نہ ہم طبیعت اپنی اگر سنبھالے
وہ نخل خشک ہوں میں اس گلشن جہاں میں
پھرتا ہے باغباں بھی مجھ پر تبر سنبھالے
ہر گام پر خوشی سے وارفتگی سی ہوگی
لانا جواب خط کو اے نامہ بر سنبھالے
یا پھر کتر پر اس کے صیاد یا چھری پھیر
بے بال و پر نے تیرے پھر بال و پر سنبھالے
درد فراق آتشؔ تڑپا رہا ہے ہم کو
اک ہاتھ دل سنبھالے ہے اک جگر سنبھالے
غزل
لخت جگر کو کیونکر مژگان تر سنبھالے
حیدر علی آتش