لہو پکار کے چپ ہے زمین بولتی ہے
میں جھومتا ہوں کہ یہ کائنات ڈولتی ہے
ابھی زمین پہ اترے گی اس دریچے سے
وہ روشنی جو مسافر کی راہ کھولتی ہے
مزا تو یہ ہے کہ وہ زہر میں بجھی آواز
کبھی کبھی مرے کانوں میں شہد گھولتی ہے
عجیب ربط ہے گونگی رفاقتوں سے مجھے
وہ سوچتا ہے تو میری زبان بولتی ہے
تلاش میں ہوں توازن کہیں نہیں ملتا
ہر ایک چہرہ کو میری نگاہ تولتی ہے
جو بے اڑان ہیں عالمؔ وہ کس شمار میں ہیں
ہوا بھی اڑتے پرندے کے پر ٹٹولتی ہے
غزل
لہو پکار کے چپ ہے زمین بولتی ہے
س۔ ش۔ عالم