لہو میں تیرتے پھرتے ملال سے کچھ ہیں
کبھی سنو تو دلوں میں سوال سے کچھ ہیں
میں خود بھی ڈوب رہا ہوں ہر اک ستارے میں
کہ یہ چراغ مرے حسب حال سے کچھ ہیں
غم فراق سے اک پل نظر نہیں ہٹتی
اس آئنے میں ترے خد و خال سے کچھ ہیں
اک اور موج کہ اے سیل اشتباہ ابھی
ہماری کشت یقیں میں خیال سے کچھ ہیں
ترے فراق کی صدیاں ترے وصال کے پل
شمار عمر میں یہ ماہ و سال سے کچھ ہیں
غزل
لہو میں تیرتے پھرتے ملال سے کچھ ہیں
امجد اسلام امجد