EN हिंदी
لہو میں رنگ لہرانے لگے ہیں | شیح شیری
lahu mein rang lahrane lage hain

غزل

لہو میں رنگ لہرانے لگے ہیں

امجد اسلام امجد

;

لہو میں رنگ لہرانے لگے ہیں
زمانے خود کو دہرانے لگے ہیں

پروں میں لے کے بے حاصل اڑانیں
پرندے لوٹ کر آنے لگے ہیں

کہاں ہے قافلہ باد صبا کا
دلوں کے پھول مرجھانے لگے ہیں

کھلے جو ہم نشینوں کے گریباں
خود اپنے زخم افسانے لگے ہیں

کچھ ایسا درد تھا بانگ جرس میں
سفر سے قبل پچھتانے لگے ہیں

کچھ ایسی بے یقینی تھی فضا میں
جو اپنے تھے وہ بیگانے لگے ہیں

ہوا کا رنگ نیلا ہو رہا ہے
چمن میں سانپ لہرانے لگے ہیں

فلک کے کھیت میں کھلتے ستارے
زمیں پر آگ برسانے لگے ہیں

لب زنجیر ہے تعبیر جن کی
وہ سپنے پھر نظر آنے لگے ہیں

کھلا ہے رات کا تاریک جنگل
اور اندھے راہ دکھلانے لگے ہیں

چمن کی باڑ تھی جن کا ٹھکانہ
دل شبنم کو دھڑکانے لگے ہیں

بچانے آئے تھے دیوار لیکن
عمارت ہی کو اب ڈھانے لگے ہیں

خدا کا گھر تمہیں سمجھو تو سمجھو
ہمیں تو یہ صنم خانے لگے ہیں