لہو میں ناچتی ہمیشگی اداس ہو کے رہ گئی
نہال کرنے والی نرم جھیل پیاس ہو کے رہ گئی
وہ لذتوں بھری محبتوں بھری ملن کی ایک شب
کبھی نہ پوری ہونے والی کوئی آس ہو کے رہ گئی
سمجھ رہا تھا میں جسے سہاگ رات کی وشال رت
مرے قریب آتے آتے وہ قیاس ہو کے رہ گئی
ہرے لباس میں لگی بھلی وہ ایک دودھیا کلی
نہ جانے کس طرف چلی کہ خشک گھاس ہو کے رہ گئی
اچھالنا جو چاہتا تھا میں عوام کے لیے ظفرؔ
مرے خیال کی وہ لہر حرف خاص ہو کے رہ گئی
غزل
لہو میں ناچتی ہمیشگی اداس ہو کے رہ گئی
صابر ظفر