لہو میں ڈوبتا منظر خلاف رہتا ہے
امیر شہر کا خنجر خلاف رہتا ہے
یزید وقت کو دنیا قبول کر لے مگر
سناں کی نوک پہ اک سر خلاف رہتا ہے
سلگتی پیاس نے کر لی ہے مورچہ بندی
اسی خطا پہ سمندر خلاف رہتا ہے
مرے اصول کے بچے بھی احتجاجی ہیں
ذرا جھکوں تو مرا گھر خلاف رہتا ہے
میں چاہتا ہوں کہ دشمن کو سرخ رو کر دوں
مگر سفید کبوتر خلاف رہتا ہے
ہے اعتماد مجھے پھاوڑوں کی طاقت پر
بس اتنی بات سے پتھر خلاف رہتا ہے
عجب طرح کی طبیعت ملی ہے خود سر کو
کہ دو جہان سے اکبرؔ خلاف رہتا ہے
غزل
لہو میں ڈوبتا منظر خلاف رہتا ہے
خورشید اکبر

