لہو میں ڈوبا ہوا ملا ہے وفا کا ہر اک اصول تجھ کو
میں جانتا ہوں پسند کیوں ہیں گلاب کے سرخ پھول تجھ کو
گواہ بن کر بتا رہی ہیں یہ سرخیاں تیری انگلیوں کی
سمیٹنے پڑ رہے ہیں خونخوار جنگلوں کے ببول تجھ کو
تھکی انا کا سفر کہاں تک کہیں تو رک جا کہیں تو دم لے
بنا دیا ہے مسافتوں نے ترے قدم کی ہی دھول تجھ کو
یہ ریزہ ریزہ سی آرزوئیں کبھی تو کر دے مرے حوالے
میں اپنے بکھرے بدن کی مانند دیکھتا ہوں ملول تجھ کو
افق کے اس پار بھی مناسب نہیں ہے آدرش کا تعاقب
کہیں تجھے بے وطن نہ کر دے ترا یہ شوق فضول تجھ کو
وہ خط رقیبوں کے ہاتھ آیا لکھا تھا جو میرے نام تو نے
کہاں کہاں کر چکی ہے رسوا تری یہ چھوٹی سی بھول تجھ کو
تجھی کو نفرت رہی ہے جن سے وہ جن کی تعبیر صرف تو ہے
وہ آخر شب کے خواب کرنے پڑیں گے آخر قبول تجھ کو
قتیلؔ کتنے ہی لفظ اپنی اساس کا ذائقہ بدل لیں
اگر بتا دوں کبھی میں اپنی غزل کی شان نزول تجھ کو
غزل
لہو میں ڈوبا ہوا ملا ہے وفا کا ہر اک اصول تجھ کو
قتیل شفائی