EN हिंदी
لہو لہو سا دل داغدار لے کے چلے | شیح شیری
lahu lahu sa dil-e-dagh-dar le ke chale

غزل

لہو لہو سا دل داغدار لے کے چلے

واقف رائے بریلوی

;

لہو لہو سا دل داغدار لے کے چلے
چمن سے تحفۂ فصل بہار لے کے چلے

رکے تو سایۂ ابر بہار بن کے رکے
چلے تو گردش لیل و نہار لے کے چلے

سنا ہے حسن کی محفل میں پیار بکتا ہے
کہو کہ عشق بھی دامن کے تار لے کے چلے

کہو صبا سے کہ بیٹھے ہیں رند جام بکف
چمن میں قافلۂ نوبہار لے کے چلے

وفا کی راہ میں سب کچھ لٹا دیا ہم نے
ہمیں کو اہل وفا سوئے دار لے کے چلے

کہیں تو دل کو ملے گا سکون اہل جنوں
چلو جہاں بھی دل بے قرار لے کے چلے

انہیں تو ڈوب ہی جانا ہے ایک دن واقفؔ
جو سوچتے ہیں ہمیں کوئی پار لے کے چلے