لہو لہو سا دل داغدار لے کے چلے
چمن سے تحفۂ فصل بہار لے کے چلے
رکے تو سایۂ ابر بہار بن کے رکے
چلے تو گردش لیل و نہار لے کے چلے
سنا ہے حسن کی محفل میں پیار بکتا ہے
کہو کہ عشق بھی دامن کے تار لے کے چلے
کہو صبا سے کہ بیٹھے ہیں رند جام بکف
چمن میں قافلۂ نوبہار لے کے چلے
وفا کی راہ میں سب کچھ لٹا دیا ہم نے
ہمیں کو اہل وفا سوئے دار لے کے چلے
کہیں تو دل کو ملے گا سکون اہل جنوں
چلو جہاں بھی دل بے قرار لے کے چلے
انہیں تو ڈوب ہی جانا ہے ایک دن واقفؔ
جو سوچتے ہیں ہمیں کوئی پار لے کے چلے
غزل
لہو لہو سا دل داغدار لے کے چلے
واقف رائے بریلوی