EN हिंदी
لہو کو پالتے پھرتے ہیں ہم حنا کی طرح | شیح شیری
lahu ko palte phirte hain hum hina ki tarah

غزل

لہو کو پالتے پھرتے ہیں ہم حنا کی طرح

طارق مسعود

;

لہو کو پالتے پھرتے ہیں ہم حنا کی طرح
بدل گئے ہیں مضامیں تری وفا کی طرح

ہم اعتبار وفا کا گماں کریں بھی تو کیا
وہ آج صورت گل ہیں تو کل صبا کی طرح

اسے تو سنگ رعونت نے کر دیا گھائل
میں ٹوٹ ٹوٹ گیا شیشۂ انا کی طرح

جھٹک کے لے گیا بھیگی رتوں کے امکانات
نکل گیا مرے صحرا سے پھر ہوا کی طرح

کبھی کھلے بھی در مستجاب چارہ گراں
بہت دنوں سے تہی دست ہوں دعا کی طرح

عصا چھنا ہے تو کاسہ بھی لے اڑا کوئی
نوا نوا ہوں سر شہر جاں گدا کی طرح

لگی ہے شہر میں اک بھیڑ مرنے والوں کی
یہ کس نے ڈالی ہے مقتل میں خوں بہا کی طرح

کہیں تو اس کے مراسم میں جھول تھا طارق
وگرنہ ہم سے نہ ملتا وہ آشنا کی طرح