EN हिंदी
لہو کی بے بسی کو یوں نہ رسوا چھوڑ دینا تھا | شیح شیری
lahu ki bebasi ko yun na ruswa chhoD dena tha

غزل

لہو کی بے بسی کو یوں نہ رسوا چھوڑ دینا تھا

نعمان امام

;

لہو کی بے بسی کو یوں نہ رسوا چھوڑ دینا تھا
کچھ اس میں غیرت جاں کا حوالہ چھوڑ دینا تھا

میں آئینوں میں خود کو ڈھونڈھتا ہوں خود نہیں ملتا
مرے چہروں میں کوئی میرا چہرہ چھوڑ دینا تھا

عجب گھر ہیں کہ جن میں کوئی کھڑکی ہے نہ دروازہ
ہوا کے آنے جانے کا تو رستہ چھوڑ دینا تھا

عبث ساحل پہ تم لہروں کو کیوں گن رہے یوں ہی
جو خواہش موتیوں کی تھی کنارہ چھوڑ دینا تھا

انہیں تو کربلا کی تشنگی آواز دیتی تھی
وہ دریا تھے انہیں شہر مدینہ چھوڑ دینا تھا

فسادوں کے زمانے میں سکوں اچھا نہیں لگتا
کسی افواہ کا کوئی شگوفہ چھوڑ دینا تھا

نمود و نام نے کس کو کہاں پر کب سکوں بخشا
میاں اس کے لیے شہرت کا سودا چھوڑ دینا تھا