EN हिंदी
لہو ہی کتنا ہے جو چشم تر سے نکلے گا | شیح شیری
lahu hi kitna hai jo chashm-e-tar se niklega

غزل

لہو ہی کتنا ہے جو چشم تر سے نکلے گا

فضا ابن فیضی

;

لہو ہی کتنا ہے جو چشم تر سے نکلے گا
یہاں بھی کام نہ عرض ہنر سے نکلے گا

ہر ایک شخص ہے بے سمتیوں کی دھند میں گم
بتائے کون کہ سورج کدھر سے نکلے گا

کرو جو کر سکو بکھرے ہوئے وجود کو جمع
کہ کچھ نہ کچھ تو غبار سفر سے نکلے گا

میں اپنے آپ سے مل کر ہوا بہت مایوس
خبر تھی گرم کہ وہ آج گھر سے نکلے گا

ہیں برف برف ابھی میرے عہد کی راتیں
افق جلیں گے تو شعلہ سحر سے نکلے گا

یہ کیا خبر تھی کہ اے رنج رائگاں نفسی
دھواں بھی سینۂ اہل نظر سے نکلے گا

مری زمیں نے خلا میں بھی کھینچ دی دیوار
تو آسماں سہی کس رہ گزر سے نکلے گا

تمام لوگ اسی حسرت میں دھوپ دھوپ جلے
کبھی تو سایہ گھنیرے شجر سے نکلے گا

سمو نہ تاروں میں مجھ کو کہ ہوں وہ سیل نوا
جو زندگی کے لب معتبر سے نکلے گا

پھرا ہوں کاسہ لیے لفظ لفظ کے پیچھے
تمام عمر یہ سودا نہ سر سے نکلے گا

فضاؔ متاع قلم کو سنبھال کر رکھو
کہ آفتاب اسی درج گہر سے نکلے گا