لہو آنکھوں میں روشن ہے یہ منظر دیکھنا اب کے
دیار غم میں کیا گزری ہے ہم پر دیکھنا اب کے
اندھیرا ہے وہی لیکن روایت وہ نہیں باقی
چراغوں کی جگہ ہاتھوں میں خنجر دیکھنا اب کے
سلگتے گھر کی چنگاری بھی بدلہ لینے والی ہے
یہ منظر دیکھنا لیکن سنبھل کر دیکھنا اب کے
شکست و فتح کی تاریخ لکھی جائے گی یوں بھی
تہی دستی سے ہوگا معرکہ سر دیکھنا اب کے
شناسائی کے سائے بڑھ گئے صحن رفاقت میں
ہماری پشت میں پیوست خنجر دیکھنا اب کے
زمیں کو پھر لہو بخشا گیا ہے بے گناہوں کا
ستم کے ہر شجر کو پھر ثمر ور دیکھنا اب کے
سکوت شب میں آنکھیں بند ہوں گی جب دریچوں کی
کوئی سایہ نظر آئے گا در در دیکھنا اب کے
چھلکنے والی ہے یہ چشم ویراں ایک دن راہیؔ
سلگتے دشت میں کوئی سمندر دیکھنا اب کے

غزل
لہو آنکھوں میں روشن ہے یہ منظر دیکھنا اب کے
راہی قریشی