EN हिंदी
لہر لہر کیا جگ مگ جگ مگ ہوتی ہے | شیح شیری
lahr lahr kya jagmag jagmag hoti hai

غزل

لہر لہر کیا جگ مگ جگ مگ ہوتی ہے

زیب غوری

;

لہر لہر کیا جگ مگ جگ مگ ہوتی ہے
جھیل بھی کوئی رنگ بدلتا موتی ہے

کاوا کاٹ کے اوپر اٹھتی ہیں قازیں
گن گن گن گن پروں کی گنجن ہوتی ہے

چڑھتا ہوا پرواز کا نشہ ہے اور میں
تیز ہوا رہ رہ کر ڈنک چبھوتی ہے

گہرے سناٹے میں شور ہواؤں کا
تاریکی سورج کی لاش پہ روتی ہے

دیکھو اس بے حس ناگن کو چھونا مت
کیا معلوم یہ جاگتی ہے یا سوتی ہے

میری خستہ مزاجی دیکھتے سب ہیں مگر
کتنے غموں کا بوجھ اٹھائے ہوتی ہے

کس کا جسم چمکتا ہے پانی میں زیبؔ
کس کا خزانہ رات ندی میں ڈبوتی ہے