لہر لہر کیا جگ مگ جگ مگ ہوتی ہے
جھیل بھی کوئی رنگ بدلتا موتی ہے
کاوا کاٹ کے اوپر اٹھتی ہیں قازیں
گن گن گن گن پروں کی گنجن ہوتی ہے
چڑھتا ہوا پرواز کا نشہ ہے اور میں
تیز ہوا رہ رہ کر ڈنک چبھوتی ہے
گہرے سناٹے میں شور ہواؤں کا
تاریکی سورج کی لاش پہ روتی ہے
دیکھو اس بے حس ناگن کو چھونا مت
کیا معلوم یہ جاگتی ہے یا سوتی ہے
میری خستہ مزاجی دیکھتے سب ہیں مگر
کتنے غموں کا بوجھ اٹھائے ہوتی ہے
کس کا جسم چمکتا ہے پانی میں زیبؔ
کس کا خزانہ رات ندی میں ڈبوتی ہے
غزل
لہر لہر کیا جگ مگ جگ مگ ہوتی ہے
زیب غوری