لہر لہر آوارگیوں کے ساتھ رہا
بادل تھا اور جل پریوں کے ساتھ رہا
کون تھا میں یہ تو مجھ کو معلوم نہیں
پھولوں پتوں اور دیوں کے ساتھ رہا
ملنا اور بچھڑ جانا کسی رستے پر
اک یہی قصہ آدمیوں کے ساتھ رہا
وہ اک سورج صبح تلک مرے پہلو میں
اپنی سب ناراضگیوں کے ساتھ رہا
سب نے جانا بہت سبک بے حد شفاف
دریا تو آلودگیوں کے ساتھ رہا

غزل
لہر لہر آوارگیوں کے ساتھ رہا
ثروت حسین