EN हिंदी
لگی ہے مسی پان کھائے ہوئے ہیں | شیح شیری
lagi hai misi pan khae hue hain

غزل

لگی ہے مسی پان کھائے ہوئے ہیں

مرزا آسمان جاہ انجم

;

لگی ہے مسی پان کھائے ہوئے ہیں
سنانے پہ بیڑا اٹھائے ہوئے ہیں

غضب ہے حسینوں سے دل کا لگانا
یہ آفت کے پتلے بنائے ہوئے ہیں

مرے خط کو پھاڑا رقیبوں کے آگے
کسی کی وہ پٹی پڑھائے ہوئے ہیں

الجھنے سے بالوں کے بگڑو نہ صاحب
تمہارے ہی یہ سر چڑھائے ہوئے ہیں

کلیجہ ہتھیلی پہ رکھ لوں تو جاؤں
وہ ہاتھوں میں مہندی لگائے ہوئے ہیں

شب ہجر جب خواب دیکھا یہ دیکھا
کہ تجھ کو گلے سے لگائے ہوئے ہیں

تری تیغ کی آب جاتی رہی ہے
مرے زخم پانی چرائے ہوئے ہیں

جدھر دیکھتا ہوں انہیں کا ہے جلوہ
وہ نظروں میں ایسے سمائے ہوئے ہیں

اتاریں گے کس کس کو نظروں سے انجمؔ
وہ کیوں آج تیوری چڑھائے ہوئے ہیں