لگے تھے غم تجھے کس عمر میں زمانے کے
وہی تو دن تھے ترے کھیلنے کے کھانے کے
نہ جانے خندہ لبی زہر خند کیسے ہوئی
وہی ہے تو وہی انداز دل دکھانے کے
چراغ جلتا ہوا دور ہی سے دیکھ لیا
رہے نہ ہم تری محفل میں آنے جانے کے
فلک کے پاس محبت کی اک کرن بھی نہیں
زمین کہتی ہے منہ کھول دے خزانے کے
ہے شہر شہر وہی جنگلوں کی ویرانی
ملے ہیں مجھ کو شب و روز کس زمانے کے
یہ قافلے یہ چمکتی ہوئی گزر گاہیں
ہیں اہتمام بہت دور تک نہ جانے کے
تلاش رزق میں ہم نے چمن تو چھوڑ دیا
مگر دلوں میں ہیں تنکے بھی آشیانے کے
غزل
لگے تھے غم تجھے کس عمر میں زمانے کے
شہزاد احمد